Saturday, 16 September 2017
insane ka nafse
ایک سپیرا سانپ پکڑ کر اپنی روٹی روزی کا سامان کیا کرتا تھا.. دن رات نئے اور زھریلے سانپوں کی تلاش میں جنگلوں ویرانوں اورصحراﺅں میں سرگرداں رھتا.. ایک بار برفباری کے موسم میں اسے ایک قوی الجثہ اژدھا مردہ حالت میں دکھائی دیا..سپیرے نے اتنا بڑا اژدھا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.. اس کے دیکھنے سے اس کے دل پر ھیبت طاری ھوئی.. پھر خیال آیا کہ اگر اسے کسی طریقے اٹھا کر شہر میں لے جاﺅں تو تماشیائیوں کا انبوہِ کثیر جمع ھو جائیگا اور میری آمدن میں بیش از بیش اضافہ ھو جائے گا.. سو وہ بڑی
(خبر جا ری ہے)
مشقت سے اس مردہ اژدھے کو لیکر شہر میں آگیا..اژدھا کیا تھا , ایک طویل ستون محسوس ھو رھا تھا.. سپیرا اسے موٹے رسوں سے باندھ کرکھینچتا ھوا لایا اور شہر میں منادی کروا دی کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر اس اژدھے کو قابو کیا لیکن افسوس کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ مرگیا ھے..سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں دھوم مچ گئی.. لوگ جوق درجوق وھاں پہنچنے لگے.. سینکڑوں اور ھزاروں احمق جمع ھوگئے.. سپیرے نے ان سے پیسے بٹورنے کیلئے یہ انتظام بھی کیا کہ اژدھے کو لپیٹ لپاٹ کر ایک بڑے سے ٹوکرے میں بند کردیا تاکہ جب زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ھوجائیں تب اس اژدھے کی رونمائی کرے.. تھوڑی ھی دیر میں اس قدر لوگ جمع ھو گئے کہ شہر کے چوک میں تل دھرنے کے جگہ باقی نہ ھی..دوسری طرف حقیقت یہ تھی کہ سپیرا اپنے گمانِ فاسد کے مطابق اسے مردہ سمجھ رھا تھا جب کہ وہ اژدھا زندہ تھا.. شدت کی سردی اور برفباری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ھوگیا تھا اور وہ مردہ دکھائی دے رھا تھا.. شہر کی دھوپ اور لوگوں کی اژدھام کی وجہ سے اس کے وجود میں کچھ حرارت پیدا ھوئی اور یکایک اس نے ایک جنبش لی اور اپنا منہ کھول دیا.. پھر کیا تھا ایک قیامت برپا ھوگئی.. لوگ بدحواس ھوکر بھاگے..بہت سے لوگ ھجوم میں بری طرح کچلے گئے..اژدھے نے سارے رسے توڑ دیے.. دہشت کی وجہ سے سپیرے کے ھاتھ پاﺅں پھول گئے.. اس نے کہا یہ کیا غضب ھوگیا.. یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا ھوں.. اس اندھے بھیڑیے کو میں نے ھوشیار کردیا ھے.. اپنے ھاتھوں سے اپنی موت بُلالی ھے..ابھی وہ اپنی جگہ سے ھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اسے نگل لیا.. پھر رینگتا ھوا آگے بڑھا اور ایک عمارت کے ستون سے اپنی آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ھڈیاں بھی سرمہ ھوگئی ھوں گی..نتیجہ :~ اے عزیز ! غور کر کہ تیرا نفس بھی اژدھا ھے اسے مردہ مت سمجھ.. وہ وقتی بےسروسامانی کی وجہ سے منجمد نظر آتا ھے.. روایت ھے کہ فرعون کے (استدراجی) حکم سے دریا کا پانی رواں ھوجاتا تھا.. اگر ویسی ھی قدرت تجھے بھی حاصل ھو جائے تو تو بھی فرعون بن جائے.. یاد رکھ ! جو غرور اس میں تھا وہ تیری ذات میں بھی موجود ھے لیکن فرق صرف اتنا ھے کہ تیرا اژدھا ابھی کنویں میں مقیّد ھے..!!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment